ذہنی پریشانیاں آج کے جدید دور کا ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں نتائج حاصل کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کا دباؤ، خاندانی مسائل اور بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسان تنہائی کی زندگی اختیار کر لیتا ہے اور مزید مسائل کا شکار ہو جاتا ہے جس سے اس کی ذہنی صلاحیتیں ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔اگر آپ روزانہ ایک ہی جگہ پر مقید رہتے ہیں‘تنہائی کا شکار ہیں تو آپ کی تخلیقی توانائی ماند پڑنے لگتی ہے۔اس سے بچنے کے لئے آپ تصویروں، پودوں، کتابوں حتی کہ بچوں کے کھلونوں سے بھی آپ کچھ ایسا سیکھ سکتے ہیں جس سے آپ کی تخلیقی توانائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہم صرف ایسی معلومات میں دلچسپی لیتے ہیں جو ہمارے پہلے سے موجود نظریات سے مطابقت رکھتی ہوں ۔ اگر آپ ایک ہی طرح کے اخبارات اور کتابیں پڑھتے ہیں تو کبھی معمول سے ہٹ کر کسی مختلف اخبار یا کتاب کو پڑھنا شروع کریں، باغبانی پر لکھی گئی کتاب‘پکوان کی ریسیپی‘ کھیلوں پر لکھی گئی کوئی کتاب اٹھا لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔آپ کسی کلاس میں داخلہ لے سکتے ہیں جیسے کوکنگ یا تعمیر شخصیت پر کوئی لیکچر سننے جا سکتے ہیں۔ آن لائن سرچ انجن کے ذریعے کوئی نئی ویب سائٹ ڈھونڈ کر وزٹ کر سکتے ہیں۔ اپنے علاقے یا شہر کے کسی نئے حصے کو دیکھنے کا پروگرام بنائیں اور اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کیجیے۔
خود کلامی کا انداز
ایک معروف مصنف اپنی ذہنی رکاوٹ دور کرنے کے بارے میں لکھتا ہے کہ اکثر اوقات لکھتے ہوئے مجھے ذہنی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب کچھ اچھا چل رہا ہوتا ہے کہ اچانک میں کسی پیرا گراف پر رک جاتا ہوں اور اس سے آگے نہیں جا سکتا۔ میں اسے لکھتا ہوں لیکن مجھے وہ اچھا نہیں لگتا لیکن میں اس سے بہتر لکھ نہیں پاتا۔ میں اسے دوبارہ لکھتا ہوں مگر یہ تقریبا پہلے جیسا ہی لکھا جاتا ہے۔ اس وقت میری سوچ رک جاتی ہے اور میں سوچ کے اس پیٹرن سے نکل نہیں پاتا۔ اس کا ایک عام علاج تو یہ ہے کہ کچھ وقفہ کیا جائے کسی اور چیز پر کام کیا جائے۔ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد آپ اس مسئلے کی طرف واپس آئیں گے تو کچھ مختلف لکھ سکیں گے۔ میں اس مسئلے کو ایک اور طریقے سے حل کرتا ہوں۔ میں اس کے بارے میں بلند آواز سے خود کلامی کرتا ہوں۔ میں اپنے آفس کا دروازہ بند کر لیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھے اس طرح خود کلامی کرتے ہوئے دیکھے۔ میں ادھر اُدھر گھومتا اور خود سے اس پر بات کرتا ہوں۔ میں اس پر غور کرتا ہوں کہ اس پیرا گراف کا بنیادی نکتہ کیا ہے۔ میں اس میں دراصل کیا کہنا چاہتا ہوں ۔ میں خود کو اس بات کا جواب اتنی بلند آواز سے دیتا ہوں جیسے کسی دوسرے کو بتایا جاتا ہےاور پھر میرا وہ مسئلہ جلد ہی حل ہو جاتا ہے۔
مضبوط قوت ارادی کاکردار
بلند آواز سے بولنا اس رکاوٹ کو دور کر دیتا ہے اور الفاظ مختلف انداز میں سامنے آنے لگتے ہیں۔ حالیہ تحقیق نے وضاحت کر دی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ سائنسدانوں نے یہ جان لیا ہے کہ لکھی ہوئی زبان اور بولی گئی زبان پردماغ مختلف طریقوں سے کام کرتا ہے۔ یہ دونوں مختلف ذہنی قوتوں کو متحرک کرتی ہیں۔مثبت خود کلامی تخلیقی سوچ کے لیے بڑی اہم ہے۔ خود کو یقین دلائیں کہ یہ کام‘ یہ مسئلہ آپ حل کر سکتے ہیں تو یقینا آپ اس کا حل ڈھونڈ نے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر آپ مضبوط ارادے کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت میں اضافے کے لیے تیار ہو جائیں تو ہر رکاوٹ عبور کی جاسکتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں